شمالی ہندوستان میں اسلام کی آمد اور محمد بن قاسم کی آمد کے وقت سندھ کی مذہبی اور سیاسی حالت

شمالی ہندوستان میں سندھ میں سب سے پہلے اسلام متعارف ہوا اور جغرافیائی اعتبار سے یہی قدرتی بات بھی تھی.
لیکن یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ پہلی صدی ہجری/ساتویں صدی عیسوی کے سندھ کا حدود اربعہ آج کے صوبہ سندھ سے، جس کا اکثر حصہ پاکستان میں ہے، سے کہیں وسیع تھا.
اس کی حدود میں گجرات پنجاب پاکستان کا بلوچستان وغیرہ کے بھی کچھ حصے آتے تھے.

عرب ممالک اور صوبہ گجرات کے تعلقات میں مفتی اقبال صاحب
مشہور مؤرخ أحمد بن يحيى بن جابر بن داود البَلَاذُري کی کتاب فتوح البلدان کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں کہ
حضرت عثمان بن ابو العاص ثقفی رضی اللہ عنہ جو کہ بحرین اور عمان کے والی تھے 15ھجری/637 عیسوی میں اپنے بھای حکم بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو بلاد سندھ و ہند  میں سے بندرگاہ بھروچ (سورت سے 50 کیلومیڑ دور) اور تھانہ (ممبئی کا پڑوسی ضلع)دیبل
(کراچی)
 مکران اور اسکی نواحی علاقوں کی طرف بھی روانہ کئے جہاں پر انہونے یلغاریں کیں اور جہاں گئے کامیاب رہے.

یاقوت بن عبداللہ حموی نے بھی اپنی کتاب  معجم البلدان میں اس بات کی تائید کی ہے.

البتہ خلیفہ ثانی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس غیر منظم اقدام کو ناپسند فرمایا جو کہ مسلمانوں کی ہلاکت کا سبب بن سکتی تھی.
اور ایک تہدید آمیز خط حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا
اس خط کے کچھ الفاظ بلاذری نے اپنی کتاب "فتوح البلدان" میں درج کئے ہیں
جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں امیر المومنین کے نزدیک ہندوستان کو سیاسی اور فوجی اعتبار سے کس درجے اہمیت حاصل تھی.
وہ لکھتے ہیں
"ائے ثقفی بھای! تو نے کیڑے کو لکڑی پر چلا دیا، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں اگر یہ فوجی مارے جاتے تو تجھ سے تیری قوم میں سے اتنے ہی آدمی لے لیتا.
(عرب ممالک اور صوبہ گجرات کے تعلقات صفحہ نمبر 153)
لہٰذا اسکے بعد کوئی اور فوجی مہم اس طرف نہیں آئی.

تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ہندوستان کے حالات کی تحقیق کرائی تو انہیں بتایا گیا کہ یہاں پانی کمیاب پھل کمتر لٹیرے ڈھیٹ اور بے شرم ہوتے ہیں.
اگر فوج مختصر ہے تو گم ہو جائیگی اور بڑی ہو تو بھوک اور پیاس سے ختم ہو جائیگی.
اس خبر کی بنیاد پر امیر المومنین نے اس سمت کوئی اہم فوجی قدم نہیں اٹھائے.
امیر المومنین علی بن ابی طالب اور امیر معاویہ رضی اللہ عنھما کے زمانے میں دو فوجی مہمات حسب ترتیب 38ھجری/660عیسوی اور 42ھجری/664عیسوی ہندوستان بھیجی گئی تھیں.
یہ فوج کشی کسی بڑے پیمانے پر نہ تھی اور نہ ہی ان جھڑپوں سے کوئی سیاسی تبدیلی عمل میں آئی.
سندھ پر مسلمانوں کا منظم حملہ محمد بن قاسم کی سرکردگی میں 93ہجری/711 عیسوی میں ہوا اور اسی نقطہ سے عام طور سے ہندوستان میں اسلام کی تاریخ شروع کی جاتی ہے.

محمد بن قاسم کی آمد کے وقت سندھ کی مذہبی اور سیاسی حالت

تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ ہندوستان میں اسلام کی آمد سے پہلے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ہندو مذہب اور اسلام کا آپسی تصادم تھا جس میں اسلام کی حیثیت حملہ آور کی تھی.
میں ذیل میں چند سطور لکھ کر یہ واضح کرنے کی کوشش کرونگا کہ یہ تصور جتنا عام ہے اتنا ہی حقیقت سے دور.

ہندوستان کا قدیم ترین مذہب، ہندو مذہب ہے.
چھٹی صدی قبل مسیح تک یہی عوام کا مذہب تھا.
لیکن ہندو مت کی طبقاتی تقسیم کی سخت گیری اس کو تنزلی کے جانب لے جانے لگی.
چھٹی صدی ق.م میں بودھ مذہب ہندو مذہب کے سامنے ایک چیلنج بن کر ابھرا اور اسکی عدم تشدد کی تعلیمات کے باعث رفتہ رفتہ برہمنیت پر غالب آگیا.
(البتہ شمالی ہندوستان میں ہر طرف راجپوت سلطنت قائم ہو گئیں نیز جنگجو راجپوتوں کو بودھ مذہب کے فلسفے عدم تشدد میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اسی لئے انہونے برہمنوں کو اپنے ساتھ ملا کر ہندو مذہب کو ایک نئی زندگی دی)
از پروفیسر انعام الحق علمی.

محمد بن قاسم کی آمد کے وقت سندھ کی سلطنت راجہ چچ (پیدائش631 وفات 711) کے دو بیٹوں دھرسیہ  اور داہر(پ663 میں پاکستانی شہر روہڑی وفات 712 میں پاکستانی شہر نواب شاہ) میں بٹی ہوئی تھی.
جنکی راجدھانیاں بالترتیب برہمن آباد (پاکستان کا ضلع سانگھڑ/منصورہ) اور الور/ارور(موجودہ پاکستانی ضلع سکھر کے روہڑی علاقہ) تھی.
دھرسیہ بودھ تھا اور داہر ہندو.
کیونکہ رعایا کی اکثریت بودھ تھی.
(چینی بودھ مونک سیاح ہیونگ سانگ
Hiuen Tsiang
 کے بقول وہ 630عیسوی/8ہجری سے 645 عیسوی/23ہجری تک ہندوستان میں قیام کیا چند مؤرخین کے نزدیک ہیونگ سانگ بھارت میں 15 سال رہا اور یہاں رہ کر اس نے سنسکرت سیکھی اور اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے رہا
اور اپنے تجربہ کو چینی زبان میں تحریر کیا جسے بعد میں انگریزی میں تبدیل کر
اسکا نام
Great Tang Records on the Western Regions

رکھا گیا جو کہ سنہ 1983 میں پہلی مرتبہ پبلش ہوئی
جس میں وہ لکھتا ہے کہ
 اس وقت ہندوستان میں اکثریت بودھ مذہب کے پیروکاروں کی تھی لیکن ادھر اُدھر برہمنوں کی آبادی بھی ہوا کرتی تھی.

اسی لئے وہ راجہ داہر سے نالاں تھی اور کہا جاتا ہے کہ بودھ رعایا نے جنگ کے وقت بالواسطہ یا بلاواسطہ راجہ داہر کے خلاف محمد بن قاسم کی مدد کی تھی.
لیکن ایک مزے کی بات آپکو بتاتا چلوں کہ جو کہ تاریخی حقیقت ہے کہ راجہ داہر کی فوجوں کا ایک حصہ مسلمانوں پر مشتمل تھا.
ہوا یوں کہ خلافت اسلامیہ کا ایک باغی جنگجو سردار محمد بن حرث علافی
حدود خلافت سے نکل کر 707عیسوی/85ھجری میں اپنے پانچ سو ساتھیوں کے ساتھ راجہ داہر کے پناہ میں آگیا.
اتفاق سے کیکانان (پاکستانی شہر روہڑی واسکے اطراف کا علاقہ) کے راجہ نے الور پر چڑھائی کردی.
اس وقت محمد بن حرث اور اسکے ساتھیوں نے کیکانان کے لشکر کو بری طرح شکست دی
داہر نے احسان مندی کے طور پر محمد بن حرث کو اپنا وزیر اعظم مقرر کیا.
جب محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کیا تو محمد بن حرث اور اسکے ساتھی آخر تک تک مسلمان فوجوں سے لڑتے رہے اور زندگی بھر راجہ داہر کے وفادار رہے.
لیکن
محمد بن قاسم کے حملے کے وقت خود سندھ کی راجدھانی میں ایک ہزار سے زائد مسلمان موجود تھے.
اب ظاہر ہے محمد بن حرث اور اسکے پانچ سو عرب ساتھی ظاہر ہے خلاء میں تو نہیں رہتے ہونگے انکے بیوی بچے بھی ساتھ ہونگے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ محمد بن قاسم کے حملے سے پہلے ہی سندھ کی راجدھانی میں ایک ہزار سے زائد مسلمان رہتے تھے.

جاری...........

ترتیب عاقب اسنوی

از
پروفیسر انعام الحق علمی.
مولانا اقبال ٹنکاروی

Comments

Popular posts from this blog

*یزید کے بارے میں اہل سنت والجماعت احناف دیوبند کا مؤقف*

*کیا امام ابو حنیفہ امام جعفر صادق کے شاگرد تھے*

*نزلہ زکام کا دائمی علاج*