محمد بن قاسم کا سندھ پر حملے کے اسباب

پچھلی قسط میں بتایا گیا تھا کہ محمد بن قاسم کی آمد سے پہلے سندھ کی مذہبی اور سیاسی حالت کیسی تھی
اس آخری قسط میں یہ بتانے کی کوشش کی جائیگی کہ سندھ پر حملے کی اصل وجوہات کیا بنی.

مولانا آزاد یونیورسٹی کے پروفیسر انعام الحق علمی
کئی مؤرخین کرام
(علامہ سلیمان ندوی، مولانا ابو ظفر ندوی، شیث محمد اسماعیل، اکبر شاہ نجیب آبادی، مولانا علی میاں ندوی،قاضی اطہر مبارکبپوری، شیخ محمد اکرام، ثروت صولت اور خلیق احمد نظامی)
کی تاریخ کے نچوڑ کا خلاصہ یہ ہے کہ
سندھ پر محمد بن قاسم کا حملہ
نا تو شہادت کا طالب تھا اور نہ ہی کشور کشائی کا.
بلکہ یہ خلافت کی توسیع استحکام شہریوں کی حفاظت و وقار کے خاطر خالصتاً تادیبی کاروائی تھی.

سندھ پر حملے کا پہلا سبب یہ تھا
سلطنت کے باغی اور راجہ داہر کے خاص دوست محمد بن حرث علافی اور اسکا بھای معاویہ بن علافی نے
حجاج بن یوسف کے عہد حکومت میں مکران (بلوچستان کا ایک تاریخی شہر)
میں بغاوت برپا کرنے والے شورش پسندوں کو اپنے ارد گرد جمع کر کے مکران کے کچھ  شہروں پر قبضہ جما لیا تھا جسے واپس حاصل کرنے کے لئے اور علافیوں کی شرارت دبانے کے لئے عراق کے گورنر حجاج بن یوسف نے سعید بن کلابی کو ان پر حملہ کے لئے بھیجا جس میں کلابی کو شکست ہوئی اور علافیوں نے انکی نعش کے ساتھ غیر انسانی سلوک کر اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا.

علافیوں کے اس خود مختاری کے اعلان کے بعد
حجاج نے فوری قدم اٹھاتے ہوے سعید تمیمی اور انکے بعد محمد بن ہارون کو مکران عامل بنا کر انکی سرکوبی کے لئے روانہ کیا.
علافی اس لشکر کی تاب نہ لا کر کئی سال پہاڑوں میں روپوش ہو گئے
پانچ سال بعد محمد بن ہارون نے معاویہ بن علافی کو گرفتار کر کے قتل کر دیا، لیکن محمد بن علافی اپنے پانچ سو سپاہیوں کے ساتھ بچ نکل راجہ داہر کے پاس چلا گیا، اتفاق سے اسکے کچھ روز بعد ہی کیکانان (موجودہ روہڑی) کے راجہ نے داہر پر چڑھائی کر دی اس وقت علافیوں نے کیکانان کے لشکر کو بری طرح شکست دی
راجہ داہر نے اپنی حکومت میں محمد بن حرث علافی کو نہ صرف وزارت عظمٰی کا اہم عہدہ عطا کیا بلکہ داہر کی حکومت کے سکوں کی پشت پر علافی کا نام تک لکھا جانے لگا.

نوٹ: اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان سے حجاج بن یوسف نے علافیوں کے ابتدائی حملے کے وقت ہی سندھ پر حملہ کی اجازت چاہی تھی لیکن اس سے پہلے کی خلیفہ کوئی فیصلہ کر پاتا 705 عیسویں میں اسکا انتقال ہو گیا ورنہ ممکن ہے کہ سندھ پر مسلمان فوجیں چھ سات برس پہلے ہی آچکی ہوتیں.

سندھ پر حملے کا دوسرا سبب حکومت کا اور اپنے شہریوں کی حفاظت کا مسئلہ تھا.

علامہ بلاذری نے ’’فتوح البلدان‘‘ میں اور بعد کے متعدد مورخین کے مطابق
کہ جب امویوں کی حکومت تھی اور حجاج بن یوسف عراق کا گورنر تھا،اسی زمانے میں مسلمانوں کی تعداد جنوبی ہند میں بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی تھی چنانچہ لنکا دیپ، مالدیپ، سرندیپ (موجودہ سری لنکا) اور مالابار (موجودہ بھارتی ریاست کیرالا اور تامل ناڈو) میں مسلمان بکثرت موجود تھے.

چنانچہ سرندیپ کے نو مسلم راجہ کے تعلقات خلافت اسلامیہ کے ساتھ نہایت ہی خوشگوار تھے،
اس راجہ نے اسلامی مرکز سے اپنے تعلقات کو اور زیادہ اسطوار کرنے کے لیے قیمتی تحائف بھرا ہوا آٹھ جہازوں کا ایک بیڑا حجاج بن یوسف کی خدمت میں روانہ کیا تھا ان جہازوں میں قیمتی تحائف کے علاوہ سینکڑوں عازمین حج اور سری لنکا میں فوت ہو جانے والے عرب تاجروں کی بیوہ عورتیں اور یتیم بچے بھی سوار تھے۔

جہازوں کا بیڑا طوفان میں پھنس کر  سندھ کی بندرگاہ دیبل (کراچی) پر جا لگا جہاں
راجہ داہر کے دیبل کے گورنر نے
ان جہازوں کو لوٹ لیا مردوں عورتوں اور بچوں کو جیل خانہ میں ڈال دیا.

حجاج کو جب راجہ داہر کے گورنر کی اس ناشائستہ حرکت کا علم ہوا تو حجاج نے بذریعہ قاصد شدید احتجاج کیا اور مسلمان قیدیوں کو رہا کرنے اور لوٹا ہوا سامان واپس کرنے کا مطالبہ کیا
لیکن
راجہ داہر نے قاصد کو لاپرواہی سے جواب دیتے ہوے کہ انہیں بحری قزاقوں نے پکڑا ہے،جو میرے دائرے اختیار سے باہر ہیں  حجاج کا مطالبہ مسترد کر دیا.
جسکے بعد حجاج نے یک بعد دیگرے دو فوجی مہم عبداللہ السلمی اور دوسری بدیل مجالی کی سرگردی میں روانہ کیا جنہیں داہر کے بیٹے جے سیہ نے بلوچستان اور دوسری مہم کو راستے میں ہی شکست دے دی دونوں جنگوں میں سپہ سالار عبداللہ السلمی اور بدیل مجالی شہید ہو گئے.

دونوں ناکامیوں کو دیکھ کر حجاج نے خلیفہ ولید بن عبدالملک سے منظوری لیکر سندھ پر حملے کی وسیع پیمانے پر تیاری شروع کر دی اور فارس کے سترہ سالہ جواں سال گورنر اور اپنے داماد محمد بن قاسم کو سندھ پر حملہ کے لئے منتخب کیا.
بالآخر ٨٩ہجری/711 میں محمد بن قاسم کی قیادت میں چھ ہزار کا لشکر شیراز و کرمان (دونوں ایران کے مشہور شہر ہیں) ہوتا ہوا سندھ کی جانب بڑھا، کرمان میں عامل کرمان محمد بن ہارون اپنی تین ہزار فوج کے ساتھ محمد بن قاسم کے ہمراہ ہو گئے اور ٩٣ہجری/712عیسوی میں ارمن بیلہ
(صوبہ بلوچستان کا صدر مقام لسبیلہ ہے۔
جو کراچی سے 200 کلومیٹر مغرب میں واقع ایک قدیم شہر ہے۔
اس ضلع کا نام لس سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کا مطلب میدان، پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے)
کے مقام پر دونوں لشکر کے درمیان مڈھبیڑ ہوئی اور راجہ داہر کی فوج کو بری طرح شکست ہوئی.
(عرب ممالک اور صوبہ گجرات کے تعلقات ص:١٦٥)
محمد بن قاسم ارمن بیلہ فتح کرنے کے بعد دیبل (کراچی) کی جانب بڑھا جو اس زمانے میں بڑی بندرگاہ تھی،
دیبل پر حملہ کے وقت مسلمانوں کا ایک بڑا سمندری بیڑا بھی دیبل پہونچ گیا جس سے محمد بن قاسم کو اور زیادہ تقویت پہنچی اور یہاں بھی راجہ داہر کی فوج کو شکست ہوئی اور اسکا بیٹا جے سیہ عرف کیشب میدان جنگ سے فرار ہو گیا.
ادھر دیبل ہارنے کے بعد راجہ داہر بھی حدود سندھ سے نکل کر راجہ راسل کی راجدھانی کچھ Kutch (موجودہ دور میں گجرات کے کاٹھیاواڑ کا حصہ ہے) کے مقام پر پونچ گیا تھا، جہاں اس نے راجہ راسل سے مل کر محمد بن قاسم کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی تدبیریں شروع کر دی.
راجہ داہر اس جنگ کو فیصلہ کن جنگ کی حیثیت دینا چاہتا تھا اور یہ جنگ واقعی فیصلہ کن ثابت ہوئی، اس میں ٹھاکروں کی فوج بھی ہزاروں کی تعداد میں داہر کے زیر کمان تھی، یہ بڑی بہادر فوج تھی، جس نے مسلمانوں کا مقابلہ بڑی جرآت اور بے جگری سے کیا، تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ اس جنگ کی شدت کا عالم یہ تھا کہ اس نواح میں اس سے قبل کبھی ایسی شدید اور زوردار جنگ نہیں ہوئی تھی.

منصور بن حاتم نخوی کے حوالے سے ممتاز مؤرخ قاضی اطہر مبارکپوری رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
راجہ داہر اور اسکے قاتلوں دونوں کی تصویریں یا مجسمے شہر بھروچ میں بنے ہوے ہیں،
چوں کہ راجہ داہر گجرات کے علاقے کچھ میں قتل ہوا، جو راجہ راسل کی ملکیت تھا، اسی لئے دونوں راجاؤں اور انکے قاتلوں کی یادگار بھروچ میں قائم کرکے دونوں بہادروں کے کارنامے کو یاد رکھا گیا.
دونوں اپنے اپنے کارناموں میں بہادر تھے، راجہ داہر نے عرب کی عظیم فوج کا جم کر مقابلہ کیا قشعم نے اس عظیم راجہ کا کام تمام کیا، راجہ داہر کے مرنے کے بعد پورے سندھ پر محمد بن قاسم کا مکمل قبضہ ہو گیا اور اطراف کے گاؤں گاؤں اور شہر شہر فتح کرتے کرتے ارور جا پہنچے.

محمد بن قاسم نے ٩٣ہجری/713 عیسوی میں مکمل سندھ فتح کرتے ہوے الور/ارور
(سندھ کا موجودہ شہر ضِلع سکّھر ‎کا روہڑی علاقہ‎)
کے جیل میں قید ان مسلمانوں کو بھی آزاد کرا لیا جو اس حملہ کا اصل سبب تھا.

اسی سال ملتان بھی فتح ہو گیا اور یہاں کی اکثر آبادی نے اسلام قبول کر لیا.
اسکے بعد گجرات کا کھیڑا کاٹھیاواڑ اور بہت سے شہروں کو فتح کیا
محمد بن قاسم کے حسن سلوک سے مقامی آبادی نے اسلام قبول کیا بھڑوچ کی فتح کے بعد تو جاٹوں کی کثیر تعداد نے اسلام قبول کر لیا
محمد بن قاسم نے مفتوح علاقوں میں مساجد و مدارس تعمیر کرائے اور قرآن و حدیث کے لئے اساتذہ مقرر فرمائے.
 اسی وقت مدھیہ پردیش کے راجہ کاکا نے محمد بن قاسم سے صلح کر لی جس  پر بن قاسم نے اسے اپنا مشیر بنا لیا دیبل کے ایک پنڈت کو جو مسلمان ہونے کے بعد علوم اسلامیہ کا ماہر ہو گیا تھا اسے بھی اپنا مشیر بنا لیا.
محمد بن قاسم نے نہ ہی جبری اسلام کی پالیسی اپنائی اور نہ ہی انکے پرانے انتظامی ڈھانچے کو تبدیل کیا، نتیجہ کے طور پر سندھ کی بھی کثیر آبادی نے بھی اسلام قبول کر لیا جس میں داہر کے بڑے بڑے سرداروں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی.

جب سلیمان بن عبدالملک خلیفہ بنا تو
اندرونی سیاسی اختلاف کے باعث
محمد بن قاسم کو معزول کر واپس دارالخلافہ پہنچنے کا حکم دیا.
کہتے ہیں جس وقت بن قاسم سندھ سے روانہ ہوا تو یہاں کے باشندے مسلم و غیر مسلم سب کے سب سوگوار تھے کھیڑا کی عوام نے بن قاسم کا ایک بڑا مجسمہ بنا کر وسط شہر میں نصب کیا
جو بن قاسم کے عادل اور ہر دل عزیز امیر ہونے کی دلیل تھی.
اس ضمن میں بلاذری کے الفاظ لائق مطالعہ ہیں
وہ لکھتے ہیں کہ

 "فبکی اھل الھندی وصوروہ بالکیرج"
محمد بن قاسم کی موت پر پر ہندوستان کے لوگ روئے اور اور کیرج میں اسکی تصویری یادگار قائم کی.
عرب ممالک اور صوبہ گجرات کے تعلقات صفحہ:١٦٩

جادوناتھ سرکار اپنی مشہور تصنیف "تاریخ اورنگزیب" میں ایک جگہ ضمنی بحث میں یہ لکھ گئے ہیں:-
"شروع کے عرب فاتحوں خصوصاً سندھ کے کے فاتحوں نے یہ عقلمندانہ اور مفید حکمت عملی اختیار کر رکھی تھی کہ وہ غیر مسلموں کی عبادتگاہوں اور مذہبی مراسم مطلق کو نہ چھیڑتے، جب وہ کسی شہر پر قبضہ کرتے تو وہاں کی غیر مسلم آبادی کو اسلام قبول کرنے کہتے، اگر وہ اسلام قبول کر لیتے تو انکو وہی حقوق حاصل ہوتے جو فاتحوں ہو ہوتے تھے، ورنہ انکو جزیہ ادا کرنا پڑتا جسکے بعد انہیں اپنے مذہب پر عبادت کرنے کی اجازت ہوتی.(جلد:٣ص/٢٥٣)

الہ باد یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر ایشوری پرساد نے محمد بن قاسم کے کارناموں پر جہاں تنقید کی ہیں وہاں یہ بھی لکھتے ہیں: سندھ پر محمد بن قاسم کا حملہ تاریخ کی رومانی داستانوں میں سے ایک ہے، پروفیسر صاحب محمد بن قاسم کی تعریف کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ اس نے اپنی نوجوانی میں سپہ سالاری کا جو جوہر دکھایا اس سے دیبل کے جاٹوں میدیوں کو بھی اس سے امیدیں بندھ گئی جو ہندوؤں کی غیر روادارانہ حکومت سے عاجز تھے اور بہت ذلت برداشت کر رہے تھے، وہ گھوڑوں پر سوار نہیں ہو سکتے تھے، انکو اچھے کپڑے پہننے کی ممانعت تھی، انکو ننگے سر رہنے کا حکم تھا، ان ذلتوں سے بس وہ ایک لکڑہارے اور پن بھرے بن کر رہ گئے تھے، انکے دلوں میں ایسا عناد بھرا گیا تھا کہ انہونے اپنی قسمت فوراً ایک اجنبی کے سپرد کر دیا.
(History of medieval India from 647 AD to the Mughal conquest. Pg:55,56
Allahabad : The Indian press, ltd., 1925)

تاریخ سندھ کے مصنف اعجاز الحق قدوسی تحریر کرتے ہیں
” محمد بن قاسم جب سندھ سے رخصت ہونے لگے تو سارے سندھ میں ان کے جانے پر اظہار افسوس کیا گیا۔ ان کی وفات پر شہر کیرج کے ہندوؤں اور بدھوں نے اپنے شہر میں ان کا ایک مجسمہ بناکر اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔
تاریخ سندھ از اعجاز الحق قدوسی صفحہ ٢٢٦
یہی ذکر علامہ بلاذری نے بھی اپنی کتاب فتوح البلدان میں کیا ہے۔

محمد اسحاق بھٹی اپنی کتاب برصغیر میں اسلام کے نقوش میں لکھتے ہیں کہ
"یہ اسکے ساتھ باشندگان ہند کی محبت و عقیدت کی انتہاء تھی اور اسکی ہردل عزیزی، معدلت گستری اور انصاف کے تقاضوں پر عمل پیرا ہونے کا واضح ثبوت تھا، مدتوں یہ صورتحال رہی اور عرصہ دراز تک لوگ اسے یاد کرتے رہے اور آنسو بہاتے رہے، وہ بہت بلند مرتبہ امیر تھا، سندھ اور ہند میں ایک طرف اگر اس نے رستم و سکندر سے بڑھا ہوا ثابت کیا تو دوسری طرف عدل و انصاف، رعایا پروری اور ہمدردی خلائق میں نوشیرواں سے بازی لے گیا.

ختم شد.

مرتب عاقب اسنویhttps://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2424148181039693&id=100003336059236

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

*یزید کے بارے میں اہل سنت والجماعت احناف دیوبند کا مؤقف*

*کیا امام ابو حنیفہ امام جعفر صادق کے شاگرد تھے*

*نزلہ زکام کا دائمی علاج*