آمیر قلعہ
راجستھان کی دارالحکومت جے پور سے 12 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے.
آمیر شہر کو سب سے پہلے مِیناؤں نے آباد کیا تھا اسکے کچھ عرصے بعد کچھواہا راجپوتوں کا قبضہ ہو گیا.
آمیر قلعے کا شمار ہندوستان کے مضبوط اور خوبصورت قلعوں میں ہوتا ہے راجستھان کے پانچ قلعوں بشمول آمیر فورٹ کے
یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ میں بھی شامل کیا گیا ہے.

آمیر قلعہ مغل راجپوت تعمیر کا ایک عمدہ شاہکار ہے جسکی تعمیر میں ریتلیے پتھر اور سنگ مرمر کا استعمال کیا گیا.
قلعہ چار منزلہ ہے، اور ہر ہر منزلے پر صحن بنائے گئے ہیں.
اور اوپری منزلے پر امبر پیلیس ہے جہاں راجہ کی قیام گاہ ہوا کرتی تھی.
قلعے میں دیوان عام، دیوان خاص، شیش محل اور جے مندر واقع ہے.
قلعے کی چاروں طرف پہاڑیاں ہیں جس پر حفاظتی دیواریں بنائی گئی ہیں اور دیواروں پر چڑھنے کے لئے سیڑھیاں بھی ہیں.

آمیر قلعہ اور سلطنت مغلیہ کے تعلقات

جس وقت مغل بادشاہ ہمایوں کی حادثاتی موت ہوئی اس وقت
جلال الدین اکبر کی عمر صرف 14 سال تھی.
1556 میں اکبر کی تاجپوشی کے بعد اسلامی ہندوستان کی تاریخ میں ایک بالکل نئے دور کا آغاز ہوتا ہے.

استحکام حکومت کے ضمن میں اکبر نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ملک میں جو صوبے خود مختار اور آزاد ہو گئے تھے، انہیں پھر حکومت دہلی کے تابع کیا اور راجپوت پالیسی پر عمل پیرا ہوا.

اے ایل سریواستو کہتے ہیں کہ
اکبر کی راجپوت پالیسی سوچی سمجھی یا جانی بوجھی پالیسی تھی اور روشن خیال مطلب پرستی قابلیت کے اقرار انصاف اور مساوی برتاؤ کے اصولوں پر مبنی تھی.

1559 میں اکبر نے آمیر کے راجا بہاری مل سے مصالحت کر لی تھی راجا نے اکبر کی اطاعت قبول کر لی،
بہاری مل نے اپنی سب سے بڑی بیٹی جودھا بائی کی شادی اکبر سے کر دی. جودھا بائی بعد میں مریم زمانی کہلائی شہزادہ سلیم عرف جہانگیر مریم زمانی ہی کی سگی اولاد ہے.
بعد میں اکبر نے بکانیر جیسلمیر کی راجپوت شہزادیوں سے بھی شادی کی.
شہزادہ سلیم نے بھی جودھا بائی کے بھای بھگونت داس کی بیٹی من بھاوتی بائی عرف شاہ بیگم سے شادی کر لی.
اکبر اپنے راجپوت رشتداروں سے شاہی خاندان کے ارکان کی طرح سلوک کرتا تھا اور انہیں فوج اور حکومت میں اعلٰی عہدے پر فائز کیا کرتا تھا.

راجپوتوں کو اعلی ترین دیوانی اور فوجی عہدے عطاء کیے،
 بھگونت داس اسکا بیٹا راجہ مان سنگھ بربل تمام اعلٰی درجے کے عہدیدار تھے.

راجہ مان سنگھ کو ہی اکبر نے میواڑ کے راجہ مہارانہ پرتاپ کی سرکوبی کے لئے کُمبل گڑھ (موجودہ راج سمند ضلع) روانہ کیا اور ہلدی گھاٹی کے مقام پر مغل افواج اور مہارانہ پرتاپ کی فوج کے درمیان تاریخی گھمسان جنگ ہوئی جس میں مہارانہ پرتاپ کی فوج کے 1600 اور مغل فوج کے 300 فوجی مارے گئے مہارانہ پرتاپ اپنی فوج کو مرتا ہوا دیکھ اپنے گھوڑے چیتک پر سوار ہو کر گوگنڈا فرار ہو گیا.

Comments

Popular posts from this blog

*یزید کے بارے میں اہل سنت والجماعت احناف دیوبند کا مؤقف*

*کیا امام ابو حنیفہ امام جعفر صادق کے شاگرد تھے*

*نزلہ زکام کا دائمی علاج*