*کچی مسجد اور مسوں کا علاج*

💐💐💐💐 کچی مسجد اور مسوں کا علاج 💐💐💐💐

ایسی کچی مساجد اکثر گائوں دیہات میں آبادی سے دور کسی سڑک یا کھیت کنارے نظر آ جاتی ہیں۔ یہ مساجد عام طور پر کچی مٹی سے تعمیر کی جاتی ہیں جس میں ایک چھوٹا سا گھاس پھوس کی چھت والا کمرہ اور ایک چھوٹا سا دالان یا برامدہ ہوتا ہے۔ اندر کمرے میں عام طور پر کھجور کے پتوں کی بنی چٹائ بچھی ہوتی ہے اور دیوار میں ایک یا دو طاق بنے ہوتے ہیں۔ ان طاقوں میں مٹی کے بنے دئیے بھی اکثر رکھے نظر آ جاتے ہیں۔ یہ ایسی مساجد ہیں جن میں باقاعدہ پانچ وقت اذان یا نماز نہیں ہوتی بلکہ یہ اکثر ویران ہی رہتی ہیں۔ ان کے بنانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کوئ مسافر یا کسان یا کام کرنے والا یا لوگوں کی کوئ جماعت اگر کبھی نماز کے اوقات میں ادھر سے گزرے تو ان کو نماز ادا کرنے کے لئے ایک پاک صاف جگہ میسر ہو سکے۔ ایسی مساجد میں بجلی وغیرہ کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہوتی ہے۔ کوشش کرنی چاہئے کہ اگر آپ کو ایسی کوئ مسجد نظر آئے تو اس میں ایک جھاڑو اور کچھ سرسوں کا تیل مٹی کے دیئے کے ساتھ یا کچھ موم بتیاں اور ماچس اس کے کمرے میں بنے طاق میں ضرور رکھ دیں تاکہ کبھی اگر کوئ مسافر رات یا شام کے وقت نماز کے اوقات میں یہاں سے گزرے تو روشنی کرکے نماز ادا کرسکے۔ یا شاید کبھی بارش و طوفان سے پناہ حاصل کرنے کے لئے ہی کوئ مسافر اندر آ بھٹکے۔ آپ کسی شہر کی ائیر کنڈیشن والی مسجد میں دبیز قالین پر چکا چوند روشنیوں میں نماز ادا کیجئے اور اگر کبھی موقع ملے تو ایسی کسی مسجد میں جھٹپٹے میں زرا تنہائی میں نماز یا نفل ادا کر کے دیکھئے۔ دل و ذہن کی کیفیت سے فرق آپ کو خود پتہ چل جائے گا کہ جیسی یکسوئ اور قلبی و روحانی سکون اور اللہ سے قربت کا احساس آپ کو ایسی کچی مسجد میں حاصل ہوگا ویسا آپ نے پہلے محسوس نہیں کیا ہوگا ۔
کافی عرصہ پہلے خواجہ شمس الدین عظیمی کا ایک کالم جنگ اخبار میں پڑھا تھا۔ اس میں کسی نے بدن پر موجود مسوں کا علاج دریافت کیا تھا۔ پورے بدن اور چہرے پر مسے ایک انتہائ ہٹیلا اور لاعلاج مرض ہے۔ اس میں انسان کی شکل انتہائ بدصورت ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالی معاف فرمائے اور سب کو اس سے اپنی حفاظت میں رکھے کہ یہ ایسا مرض ہے کہ اگر بڑھ جائے تو شکل کو ایسا بھیانک بنا دیتا ہے کہ بچے تو بچے بڑے بھی ڈر جاتے ہیں۔ سب لوگ اس کے مریض سے کتراتے ہیں۔ بہرحال تو عظیمی صاحب نے اس کا مندرجہ ذیل علاج ان الفاظ کے ساتھ تحریر کیا تھا۔
" کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کی کوئ سائنسی یا عقلی توجیہہ یا دلیل پیش نہیں کی جا سکتی لیکن وہ اثر پذیر ہوتی ہیں۔ ایسا ہی ایک علاج مسوں کی بیماری کا ہے۔ علاج یہ ہے کہ ایک ناریل کی جھاڑو اور ایک مٹی کے کورے برتن میں ایک پائو سرسوں کا تیل کسی مسجد میں رکھ دے اور ساتھ یہ الفاظ ادا کرے۔" یا شیخ موسیٰ آپ کی نیاز حاضر ہے۔ یہ مسے ختم ہو جائیں۔"
بس اس کے بعد مسے بتدریج ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔واللہ عالم!! اب آجکل گائوں دیہات میں اکثر مساجد میں تو بجلی کا انتظام ہے لہزہ وہاں سرسوں کا تیل رکھنے کا کوئ فائدہ ہوگا نہ استعمال.

اس کے لئے کوئ ایسی مسجد تلاش کی جائے کہ جہاں یہ تیل استعمال میں آ جائے۔
یہ میرا تجربہ شدہ علاج نہیں ہے لیکن یہ کچی مسجد کے کہیں تصویر دیکھ کر عظیمی صاحب کا بتایا علاج یاد آگیا تو شیئر کردیا۔
البتہ کافی لوگوں نے اس علاج کی تصدیق کی ہے کہ صرف ایک بار ایسا کرنے سے کچھ عرصے میں مسے ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے کہ تھے ہی نہیں۔
اس مسجد کو دیکھ کر یہ مسوں والا علاج یاد آ گیا تو شیئر کردیا کہ شائید اس کے توسط سے کسی کا بھلا ہوجائے۔ جہاں تک ہو سکے ایک دوسرے کے لئے آسانیاں بانٹئے کہ یہی انسانیت کی معراج
ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

*یزید کے بارے میں اہل سنت والجماعت احناف دیوبند کا مؤقف*

*کیا امام ابو حنیفہ امام جعفر صادق کے شاگرد تھے*

*نزلہ زکام کا دائمی علاج*