Posts

Showing posts from 2019
آمیر قلعہ راجستھان کی دارالحکومت جے پور سے 12 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے. آمیر شہر کو سب سے پہلے مِیناؤں نے آباد کیا تھا اسکے کچھ عرصے بعد کچھواہا راجپوتوں کا قبضہ ہو گیا. آمیر قلعے کا شمار ہندوستان کے مضبوط اور خوبصورت قلعوں میں ہوتا ہے راجستھان کے پانچ قلعوں بشمول آمیر فورٹ کے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ میں بھی شامل کیا گیا ہے. آمیر قلعہ مغل راجپوت تعمیر کا ایک عمدہ شاہکار ہے جسکی تعمیر میں ریتلیے پتھر اور سنگ مرمر کا استعمال کیا گیا. قلعہ چار منزلہ ہے، اور ہر ہر منزلے پر صحن بنائے گئے ہیں. اور اوپری منزلے پر امبر پیلیس ہے جہاں راجہ کی قیام گاہ ہوا کرتی تھی. قلعے میں دیوان عام، دیوان خاص، شیش محل اور جے مندر واقع ہے. قلعے کی چاروں طرف پہاڑیاں ہیں جس پر حفاظتی دیواریں بنائی گئی ہیں اور دیواروں پر چڑھنے کے لئے سیڑھیاں بھی ہیں. آمیر قلعہ اور سلطنت مغلیہ کے تعلقات جس وقت مغل بادشاہ ہمایوں کی حادثاتی موت ہوئی اس وقت جلال الدین اکبر کی عمر صرف 14 سال تھی. 1556 میں اکبر کی تاجپوشی کے بعد اسلامی ہندوستان کی تاریخ میں ایک بالکل نئے دور کا آغاز ہوتا ہے. استحکام حکومت کے
Image
’مہاراجہ سوائی جے سنگھ ثانی ‘‘ نے 1727ء میں گلابی شہر جے پور کو تعمیر کرایا اور اسے اپنا دارالحکومت شہر کا درجہ دیا۔ اس سے قبل آمیر کو یہ مقام حاصل تھا۔ آمیر اور جے پور کے درمیان صرف چھ میل کا فاصلہ ہے۔ مہاراجہ جے سنگھ ثانی نے 1699ء سے 1744ء تک حکومت کی۔ آبادی میں اضافے اور آمیر شہر میں پانی کی قلت کے سبب مہاراجہ نے اپنے نام سے ’’جے پور‘‘ شہر تعمیر کرایا۔  شہر کو 9 حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ دو حصوں میں محلات اور سرکاری عمارتیں تعمیر کی گئیں اور باقی سات حصے عوام کے حوالے کر دیے گئے۔ حفاظت کے خیال سے شہر کے گرد مضبوط دیواروں کی فصیل تعمیر کی گئی، جس میں سات دروازے لگائے گئے۔ ان میں سے تین دروازوں کا رخ مہاراجہ کے بزرگوں کی سلطنت کی جانب تھا۔ یہ دروازے سورج، چاند اور زور آور سنگھ کے نام سے آج بھی مشہور ہیں۔ اس شہر کی گلیوں کی ترتیب مشرق، مغرب اور شمال جنوب کی سمتوں میں ہے۔ غروب آفتاب کے وقت شہر کے دروازے بند کردیئے جاتے تھے اور صبح کو طلوع آفتاب کے وقت کھولے جاتے تھے۔  جے پور کے لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ہندوستان کا پہلا شہر ہے، جس کی تعمیر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی گ
Image
کہتے ہیں خاندیش حجری دور کا علاقہ ہے جہاں زندگی کے دس ہزار سال پرانے آثار ملتے ہیں. خاندیش ہندوستانی ریاست مہاراشٹر کا ایک علاقہ ہے. ہندوؤں کی مقدس کتاب مہا بھارت اور رامائن میں بھی خاندیش کا ذکر ملتا ہے. رامائن میں خاندیش کو "رشیک" کہا گیا ہے. خاندیش میں مسلمانوں کی آمد بادشاہ علاءالدین خلجی کی دور میں ہوئی جب خلجی سردار ملک کافور نے 1306 عیسوی میں دکن پر حملے شروع کیا اور 1312 تک پورے مہاراشٹر اور دکن کے علاقے کو فتح کر لیا. تغلقوں کے عہد میں سلطنت دہلی کا ایک صوبہ رہا۔  فیروز خان تغلق نے ملک احمد راجا فاروقی کو خاندیش کا صوبیدار مقرر کیا تھا جسکے بعد خاندان فاروقی نے خاندیش پر تقریباً 225 برس حکومت کی. 1601ء میں اکبر نے فاروقی خاندان کو شکست دیکر خاندیش پر قبضہ کر لیا اور اپنے بیٹے شہزادہ دانیال کو خاندیش کا گورنر مقرر کر دیا جو کہ 1605 میں ہی وفات پا گیا. 8 مئی 1636 میں اورنگزیب عالمگیر کو دکن برار اور خاندیش کا صوبیدار بنایا گیا. 1707 میں اورنگزیب کے انتقال کے بعد مغلوں کے زوال کا آغاز ہوا اور خاندیش پر مرہٹے قابض ہو گئے اور پھر انگریزوں کے قبضے میں آیا۔
علامہ اقبال اور مولانا عبدالمجید سالک عبدالمجید سالک رقم طراز ہیں: (جب ’’زمیندار‘‘ سے علیحدہ ہو کر ہم نے اپنا اخبار نکالنے کا ارادہ کیا تو) ایک شام علامہ اقبال کے ہاں بیٹھے تھے کہ اخبار کا نام ’’انقلاب‘‘ تجویز ہوا اور علامہ نے اسکے پہلے پرچے کے صفحہ اول کیلئے نظم لکھی جس میں سرمایہ دار مزدور کی کشمکش کا ذکر بھی کیا جو حقیقت میں ’’انقلاب‘‘ کے اجرا کا باعث ہوئی: خواجہ از خون رگ مزدور سازولعل ناب از جفائے وہ خدایاں کشت دہقاناں خراب انقلاب، انقلاب، اے انقلاب حکومت برطانیہ اپنی سلطنت میں سیاسی، فوجی، علمی، ادبی خدمات کے لحاظ سے ہر سال خطابات عطا کرتی تھی۔ یکم جنوری 1923 کو حکومت نے علامہ اقبال کے علمی مقام کے پیش نظر انہیں سر کا خطاب دیا لیکن مسلم عوام نے اسے پسند نہ کیا۔ انکے دلوں میں اقبال کا جو مقام تھا وہ ایسے خطابات کا محتاج نہ تھا۔ سر کا خطاب ملنے پر انکے دوست میر غلام بھیک نیرنگ نے انہیں لکھا کہ شاید اب آپ آزادی سے اپنے خیالات کا اظہار نہ کر سکیں۔ اس پر علامہ اقبال نے یہ جواب تحریر کیا: ’’قسم ہے خدائے ذوالجلال کی جس کے قبضے میں میری جان اور آبرو ہے اور قسم ہے اس بزرگ و
محمد بن قاسم کا سندھ پر حملے کے اسباب پچھلی قسط میں بتایا گیا تھا کہ محمد بن قاسم کی آمد سے پہلے سندھ کی مذہبی اور سیاسی حالت کیسی تھی اس آخری قسط میں یہ بتانے کی کوشش کی جائیگی کہ سندھ پر حملے کی اصل وجوہات کیا بنی. مولانا آزاد یونیورسٹی کے پروفیسر انعام الحق علمی کئی مؤرخین کرام (علامہ سلیمان ندوی، مولانا ابو ظفر ندوی، شیث محمد اسماعیل، اکبر شاہ نجیب آبادی، مولانا علی میاں ندوی،قاضی اطہر مبارکبپوری، شیخ محمد اکرام، ثروت صولت اور خلیق احمد نظامی) کی تاریخ کے نچوڑ کا خلاصہ یہ ہے کہ سندھ پر محمد بن قاسم کا حملہ نا تو شہادت کا طالب تھا اور نہ ہی کشور کشائی کا. بلکہ یہ خلافت کی توسیع استحکام شہریوں کی حفاظت و وقار کے خاطر خالصتاً تادیبی کاروائی تھی. سندھ پر حملے کا پہلا سبب یہ تھا سلطنت کے باغی اور راجہ داہر کے خاص دوست محمد بن حرث علافی اور اسکا بھای معاویہ بن علافی نے حجاج بن یوسف کے عہد حکومت میں مکران (بلوچستان کا ایک تاریخی شہر) میں بغاوت برپا کرنے والے شورش پسندوں کو اپنے ارد گرد جمع کر کے مکران کے کچھ  شہروں پر قبضہ جما لیا تھا جسے واپس حاصل کرنے کے لئے اور علافیوں
شمالی ہندوستان میں اسلام کی آمد اور محمد بن قاسم کی آمد کے وقت سندھ کی مذہبی اور سیاسی حالت شمالی ہندوستان میں سندھ میں سب سے پہلے اسلام متعارف ہوا اور جغرافیائی اعتبار سے یہی قدرتی بات بھی تھی. لیکن یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ پہلی صدی ہجری/ساتویں صدی عیسوی کے سندھ کا حدود اربعہ آج کے صوبہ سندھ سے، جس کا اکثر حصہ پاکستان میں ہے، سے کہیں وسیع تھا. اس کی حدود میں گجرات پنجاب پاکستان کا بلوچستان وغیرہ کے بھی کچھ حصے آتے تھے. عرب ممالک اور صوبہ گجرات کے تعلقات میں مفتی اقبال صاحب مشہور مؤرخ أحمد بن يحيى بن جابر بن داود البَلَاذُري کی کتاب فتوح البلدان کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن ابو العاص ثقفی رضی اللہ عنہ جو کہ بحرین اور عمان کے والی تھے 15ھجری/637 عیسوی میں اپنے بھای حکم بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو بلاد سندھ و ہند  میں سے بندرگاہ بھروچ (سورت سے 50 کیلومیڑ دور) اور تھانہ (ممبئی کا پڑوسی ضلع)دیبل (کراچی)  مکران اور اسکی نواحی علاقوں کی طرف بھی روانہ کئے جہاں پر انہونے یلغاریں کیں اور جہاں گئے کامیاب رہے. یاقوت بن عبداللہ حموی نے بھی اپنی کتاب  معجم البلدان میں اس