*یزید کے بارے میں اہل سنت والجماعت احناف دیوبند کا مؤقف*

یزید کے بارے میں اهل سنت والجماعت احناف دیوبند  کا مؤقف
فسقِ یزید:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یزید کے بارے میں عام طور پر تین طرح کی آرا پائی جاتی ہیں۔
۱:شیعہ حضرات اسے کافر قرار دیتے اور اس پر ہر وقت لعن طعن کرنے کو عبادت سمجھتے ہیں۔
۲: اھل حدیث (غیر مقلد) حضرات اور مماتی عقائد کے لوگ اسے عادل، صالح اور اپنا امام و پیشوا مانتے ہیں۔
اور جمہور اہل سنت والجماعت اور اکابر علمائے دیوبند اسے فاسق فاجر کہتے اور اس کی تکفیر اور لعن میں توقف کرتے ہیں۔
یزید کے بارے میں سب سے زیادہ اعتدال والا مؤقف حضرات اہل سنت والجماعت اور علمائے دیوبند کا ہی ہے۔
یاد رہے کہ یزید کی شخصیت کے ساتھ ہمیں کوئی خاص دلچسپی نہیں بلکہ ہمارا منشا صرف دفاعِ صحابہ ہے جو یزید کو فاسق فاجر ماننے کی صورت میں ہی ممکن ہے
اس لئے کہ بعض صحابہ کرام نے یزید کی بیعت کی ہے جیسے حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنھم اجمعین وغیرہ، لہذا اگر ہم یزید کو قطعی طور پر کافر کہتے ہیں تو ان صحابہ کرام کی شان میں فرق آتا ہے کیونکہ کافر کی بیعت کسی صورت جائز نہیں۔
جبکہ دوسری طرف بہت سے صحابہ کرام نے یزید کے خلاف خروج اور قتال بھی کیا ہے، جیسے حضرت امام حسین، حضرت عبد اللہ بن زبیر، حضرت عبد اللہ بن حنظلہ، حضرت عبد اللہ بن مطیع رضی اللہ عنھم اجمعین، اگر ہم یزید کو صالح، عادل اور خلیفۂ برحق مانتے ہیں تو ان سب صحابہ کرام کو باغی اور گناہگار ماننا پڑتا پے کیونکہ امام عادل کے خلاف خروج بھی کسی صورت میں درست نہیں۔
ہم ان دونوں نظریوں کو افراط و تفریط پر مبنی سمجھتے ہیں۔ ہم نہ یزید کو قطعی طور پر کافر کہتے ہیں اور نہ ہی اسے صالح و عادل سمجھتے ہیں بلکہ اسے فاسق و فاجر قرار دیتے ہیں۔ یہی اعتدال والا نظریہ ہے اور اسی نظریہ سے صحابہ کرام کی نورانی شخصیات کی شان کا تحفظ ممکن ہے۔
فاسق کی حکومت کے بارے میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک اس کے خلاف جہاد کرکے اسے ہٹانا ضروری ہے اور بعض کے نزدیک جب تک وہ واضح طور پر کفر کا مرتکب نہ ہو تب تک محض فسق کی بنا پر اس کے خلاف جنگ کرنا جائز نہیں بلکہ اس کی اطاعت ضروری ہے۔ صحابہ کرام میں سے جن کا پہلا نظریہ تھا، انہوں نے یزید کے خلاف جہاد کیا اور جن کا دوسرا مؤقف تھا، انہوں نے اس کی بیعت کو برقرار رکھا، لہذا جن صحابہ نے یزید کی بیعت کو توڑنے سے گریز کیا وہ اس لئے کہ ان کے نزدیک فاسق کے خلاف جہاد کرنا اور اس کی بیعت توڑنا جائز ہی نہیں تھا، یہ نہیں کہ وہ یزید کو صالح اور عادل مانتے تھے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اور واقعہ حرہ کے بعد کسی بھی صحابی سے یزید کی تعدیل و توثیق ثابت نہیں ہے، اگر ثابت ہے تو پیش کی جائے۔
یزید کا فسق و فجور کیا تھا جس کی بنا پر ہم اسے فاسق و فاجر کہتے ہیں؟ تاریخ میں بہت سی روایات اس کے ترک نماز، اور شراب نوشی کے بارے میں بھی موجود ہیں تاہم ہم ان سے اس وقت صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف اتنا عرض کرتے ہیں کہ اس نے حضرت امام حسین، حضرت عبد اللہ بن حنظلہ، حضرت عبد اللہ بن مطیع اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضوان اللہ علیھم اجمعین کے خلاف جنگ کی اور غیر صحابی کا صحابی کے ساتھ جنگ کرنا ہی اس کے فاسق فاجر ہونے کے لئے کافی ہے۔ واقعہ کربلا، مدینہ منورہ پر حملہ کرکے وہاں قتل و غارت کا بازار گرم کرنا، اس کی حرمت کو پامال کرنا اور حضرت عبد اللہ بن زبیر کے خلاف لشکر کشی کرنا اس کے دور کے سیاہ کارنامے ہیں اور جنت کے جوانوں کے سردار حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کا اس کے خلاف جہاد کے لئے نکلنا ہی اس کے فسق و فجور کی کافی دلیل ہے۔
اشکال:
بعض صحابہ کرام نے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بھی جنگ کی ہے حالانکہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو کوئی بھی فاسق نہیں کہ سکتا۔
جواب:
حضرت علی رضی اللہ عنہ خود بھی صحابی ہیں لہذا یزید کو ان پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، صحابی کا صحابی کے ساتھ جنگ کرنا فسق نہیں جبکہ غیر صحابی کا صحابی کے ساتھ جنگ کرنا یقینا فسق ہے۔
دوسری بات یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حکومت اور خلافت پر کسی ایک صحابی نے بھی اعتراض نہیں کیا بلکہ صحابہ کرام نے حضرت عثمان کے قصاص کا مطالبہ کیا تھا اور غلط فہمی اور مفسدین کی شرارت کی بنا پر جنگ کی نوبت آگئی تھی، جبکہ یزید کے خلاف صحابہ کرام کا خروج کسی دوسرے مطالبے کی بنیاد پر نہیں بلکہ خود یزید کی حکومت کے خلاف اور اسے حکومت سے ہٹانے کے لئے تھا۔ دونوں میں واضح فرق ہے۔
ایک شبہ:
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے خلاف خروج نہیں کیا تھا کیونکہ خروج تو کسی کی حکومت منعقد ہوجانے کے بعد ہوتا ہے جبکہ اس وقت تک یزید کی بیعت مکمل ہی نہیں ہوئی تھی اور حضرت امام رضی اللہ عنہ اس کی حکومت کے انعقاد کو روکنے کے لئے نکلے تھے، اور کسی کی حکومت کے انعقاد مین رکاوٹ ڈالنے کو خروج نہیں کہتے۔
ازالہ:
اتنی بات تو مان لو کہ وہ یزید کی حکومت کے قیام میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے تھے، اور اگر ذرا انصاف سے کام لو تو اس کی یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ وہ شرعا یزید کو خلافت کا اہل نہیں سمجھتے تھے۔ انہیں یزید کے ساتھ کوئی ذاتی پرخاش نہیں تھی نہ ہی محض حکومت کی طلب کے لئے اس قدر بھاگ دوڑ کررہے تھے، ان کی ساری جد و جہد کا مقصد صرف ایک فاسق کی حکومت کے شر سے امت کو بچانا تھا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت یزید کی فوج کے ہاتھوں ہوئی اور یزید نے اس ظالمانہ فعل پر اپنے کسی فوجی کو سزا دینا تو درکنار، کسی کو اس کے عہدے سے معزول تک نہ کیا۔
سوال:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں تھے، جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں معزول نہیں کیا۔
جواب:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں نے جس وقت یہ ظالمانہ فعل انجام دیا تھا، اس وقت وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں نہیں تھے کہ حضرت علی انہیں برطرف کرتے، جبکہ یزید کے سپاہیوں نے اس کے ماتحت ہوتے ہوئے حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقا کو شہید کیا تھا اور اسی کے حکم سے مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ پر فوج کشی کی تھی۔ لہذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی طرح حضرت عثمان کے قتل میں شریک نہیں تھے جبکہ یزید پوری طرح حضرت امام حسین کے قتل اور واقعہ حرہ میں ملوث تھا۔
سوال:
اگر یزید فاسق و فاجر تھا تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسے اپنا جانشین کیوں بنایا تھا؟
جواب:
اس وقت تک اس کا فسق و فجور ظاہر نہیں ہوا تھا اور عالم الغیب صرف اللہ کی پاک ذات ہے۔ خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دھوکہ باز منافقوں پر اعتبار کرتے ہوئے اپنے ستر صحابہ کرام کو ان کے ساتھ بھیج دیا تھا جس کے نتیجے میں ان کفار کے ہاتھوں ستر کے ستر صحابہ کی شہادت کا دلدوز واقعہ پیش آیا تھا۔ جس طرح رسول اللہ ﷺ پر ان کفار کا کفر واضح نہ ہوسکا، اسی طرح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر بھی یزید کا فسق ظاہر نہ ہوسکا۔ اس میں کوئی اشکال کی بات نہیں۔
ایک اشکال:
جناب رسول اللہ ﷺ نے قسطنطنیہ پر سب سے پہلا حملہ کرنے والوں کے لئے ’’مغفور لھم‘‘ )ان کی مغفرت کردی جائے گی( کی بشارت ارشاد فرمائی ہے، اس لشکر میں یزید بھی شامل تھا۔
جواب:
’’مغفور لھم‘‘ کا مطلب ہے کہ ان کے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے، اور یزید کے اکثر فاسقانہ اقدام اس لشکر میں شمولیت کے بعد کے ہیں لہذا ان اعمال کی مغفرت کی بشارت اس حدیث میں نہیں ہے۔
جس طرح رسول اللہ ﷺ نے اس لشکر کے بارے میں ’’مغفور لھم‘‘ کی بشارت ارشاد فرمائی، اسی طرح حاجی کے بارے میں بھی ’’مغفور لہ‘‘ ککے الفاظ سے بشارت ارشاد فرمائی، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ حج کرنے کے بعد بھی حاجی ساری زندگی جو مرضی گناہ کرتا رہے، سب معاف ہیں، بلکہ یہ بشارت صرف حج سے پہلے کے گناہوں کی معافی کے لئے ہے، اسی طرح یہاں بھی اس لشکر میں شمولیت سے پہلے کے گناہوں کی معافی کی بشارت ہے، بعد والوں کی نہیں۔
نیز ہم نے یزید کے فاسق ہونے کا دعوی کیا ہے، یہ دعوی نہیں کیا کہ اس کے گناہ معاف ہی نہیں ہوسکتے، اگر اللہ پاک اپنی رحمت سے معاف فرما دیں تو کچھ بعید نہیں، مگر اللہ پاک کسی کی مغفرت فرمادیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے گناہ صادر ہی نہیں ہوائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہذا اس حدیث سے یزید کے فسق کا انکار کسی طرح ثابت نہیں ہوتا۔
یزید کے متوالے اکثر و بیشتر خلیفہ چہارم سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ جنہیں رسول اللہ ﷺ نے ’’اقضاھم علی‘‘ کی سند عطا فرمائی تھی، ان کی پاکیزہ ذات پر اعتراض کرنے، ان کی حکومت میں کیڑے نکالنے اور ان کے فیصلوں میں غلطیاں نکالنے میں مشغول رہتے ہیں۔ خود بندہ نے بعض احمقوں کی زبان سے سنا ہے کہ اگر حضرت علی یوں نہ کرتے بلکہ یوں کرتے تو بہت اچھا ہوتا اور فلاں فیصلہ ایسے نہیں بلکہ ایسے فرماتے تو فلاں اور فلاں خرابی نہ ہوتی، گویا یہ چودھویں صدی کا احمق سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا استاد بن کر انہیں حکومت کی تربیت دے رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس گستاخی و شوخ چشمی کی نقد سزا اس دنیا میں یزیدی و ناصبی ٹولے کو یہ ملی ہے کہ یزید جیسے شخص کو ان کا راہنما اور پیشوا بنا دیا گیا ہے اور یہی یزیدی جو حضرت علی جیسے جلیل القدر صحابی کے برحق فیصلوں پر انگشت نمائی کی جسارت میں ذرا جھجک محسوس نہیں کرتے، اب یزید جیسے شخص کے ہر ظالمانہ اور فاسقانہ اقدام کی تاویلیں کرنے کے لئے دور دراز کی وادیوں میں حیران و پریشان اور سرگرداں پھر رہے ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

  1. جی یقینا آپ یزیدی ھیں۔

    ReplyDelete
  2. بہترین مضمون ماشاءاللہ

    ReplyDelete
  3. بکواس کرتے ھو اصلی دیوبندی جنہیں آج کل
    بدعتی لوگ مماتی کہتے ہیں وھی عقیدہ ھے جو اکابر علماء دیوبند کا ھے جو عقائد کے کتب میں مذکور ھے

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

*کیا امام ابو حنیفہ امام جعفر صادق کے شاگرد تھے*

*نزلہ زکام کا دائمی علاج*