*شامی مہاجرین کا آنکھوں دیکھا حال*

تحریر:
*مفتی ابولبابہ شاہ منصور دامت برکاتہم

           سنا تو تھا کہ آنکھوں دیکھی اور ہوتی ہے،
سنی سنائی اور۔
’’دیدہ کے بود مانند شنیدہ‘‘
لیکن
دیکھنے اور سننے میں اتنا زیادہ فرق ہوگا
اور اس قدر المناک اور روح فرسا فرق ہوگا۔
اس کا تصور بھی نہ کیا تھا۔

سمجھ نہیں آتا بات کہاں سے شروع کی جائے۔
شام کے مہاجرین کی دل فگار مظلومیت بیان کی جائے
اور اہل دل کو بتایا جائے
کہ
آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ معصوم بیٹیاں جو کربلا سے بچ کر شام آگئی تھیں،
ان پر کیا گزر رہی ہے؟
یا ترکی کے انصار کی
ہمت، سخاوت اور عزیمت کا ذکر کیا جائے
جس نے انصارِ مدینہ کی یاد تازہ کردی ہے؟
یا دنیا بھر میں حقوق انسانی کا واویلا کرنے والی اور حیوانوں کے غم میں مری جانے والی
دوغلی تنظیموں کی حقیقت آشکارا کی جائے
جن میں سے
ایک بھی… میں دہراتا ہوں… ایک بھی
یہاں موجود نہیں ہے۔
یا
پھر مسلم حکمرانوں کی بے حسی
اور صاحب حیثیت مسلمان بھائیوں کی بے بسی کا رونا رویا جائے
جو شام کے مظلوموں پر شام غریباں کے چھائے بادل گرجتے برستے دیکھ کر بھی ہونٹ سیے ہوئے ہیں؟؟؟
حکمرانوں نے زبانوں پر تالے ڈال لیے ہیں
اور عوام آنکھیں بند کرکے عافیت کی باقی ماندہ گھڑیاں باری آنے تک گزار رہے ہیں۔

شام کی سرحد کے ادھر الگ عالمی طاقتیں اپنا کھیل کھیل رہی ہیں۔
روس کا مسئلہ یہ ہے کہ ارض العرب میں امریکا کے پاس کئی اڈے موجود ہیں،
اس کے پاس صرف شام کا نیول بیس ہے۔
وہ اسے کسی صورت جانے نہیں دیتا۔
چاہے چین کے ساتھ اشتراک ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
فارس کا مسئلہ یہ ہے کہ
*’’غلبت الروم، فی ادنی الارض وھم من بعد غلبھم سیغلبون‘‘* کی معجزانہ پیشین گوئی کے چودہ سو سال بعد اسے بازی اپنے حق میں پلٹنے کا موقع ملا ہے
جسے وہ کسی قیمت پر ضائع نہیں کرنا چاہتا۔
امریکا بہادر کا مسئلہ یہ ہے
کہ گیم کے ’’سلپینگ پارٹنر‘‘ کو گریٹر اسرائیل کی طرف پیش قدمی کے لیے شام کو تقسیم کرنا اور ترکی کو کمزور کرنا اسے ناگزیر نظر آتا ہے۔

نہ رہے گی شام کے پاس گولان کی پہاڑیاں
اور نہ بجے گی فلسطینی مزاحمت کی بانسری،
لہٰذا شام کا مسلمان دو طرفہ پس رہا ہے۔

خاصہ خاصان رسل کی آل پر وہ وقت آن پڑا ہے
کہ
شیخ عزالدین عبدالسلام
اور شیخ احمد رفاعی کے معزز و مکرم خاندانوں کی وہ بیبیاں جن کو کربلا کے میدان نے نہ دیکھا تھا،
آج ریحانیہ، عرفہ اور غازی عینتاب کے کیمپوں میں کھلے آسمان تلے
زیتون کے تیل اور زائر کے چورن کے ساتھ
زندگی کی گھڑیاں بتانے پر مجبور ہیں۔

ترکی کی سرحد کے ادھر عجیب
ایمانی اور انصاری کیفیات ہیں۔
خدا کی قسم!
قارئین
عجیب کیفیات ہیں۔
جس قصبہ نما چھوٹے سے شہر میں
فقیر بیٹھا
یہ سطریں لکھ رہا ہے،
مقامی آبادی 90 ہزار ہے،
جبکہ
مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہوچکی ہے۔
سرحد کے دونوں طرف کی خبریں بتارہی ہیں
کہ اللہ نہ کرے
*حلب* کے بعد
*ادلب* کے سقوط کا
سانحہ شاید ہونے والا ہے۔
تب حلب کے وہ مہاجر جو ادلب چلے گئے تھے۔
ان کا ریلہ
جب ادلب والوں کے ساتھ آئے گا تو
ان کی خدمت کے بوجھ کا کیا عالم ہوگا؟
اس کے تصور سے
یقین مانیے
رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جس طرح مہاجرین دونوں طرف سے پس رہے ہیں،
اسی طرح انصار بھی
نیٹو اور فیٹو
دونوں کے درمیان گھرے ہوئے ہیں۔
ایک طرف
کرنسی گر کر آدھی قیمت رہ گئی ہے
تو دوسری طرف
نصرت کے لیے درکار وسائل کی
کئی گنا زیادہ ضرورت عنقریب پڑنے والی ہے۔
خوشی کی باتیں دو ہیں۔
ایک یہ کہ
وہ طبقہ جو اسلام پسند سلیم الطبع ہے،
ان کا مقابلہ ہورہا ہے کہ کون سا شہر امداد کے زیادہ سے زیادہ کنٹینر بھیجتا ہے،
جبکہ
گولنسٹ اور سیکولر یا قوم پرست حضرات
ردگانی دیوار کو کمزور ہوتا دیکھ کر ایک اور دھکے کی تیاری کیے ہوئے ہیں۔
دوسری یہ کہ
اردگان کے تیار کردہ رضاکاروں کی تنظیم،
تدبیر اور خاموش مستعدی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے
کہ
کس ملکوتی مٹی سے ان کا خمیر اٹھایا گیا ہے؟

آپ یقین کریں گے
کہ
جس مرکز میں ایک لاکھ روٹی یومیہ پک رہی ہیں،
اس کا
صرف ایک نگران ہے
اور اتنا چوکس ہے کہ
مہمانوں کے جوتے اندر جانے سے پہلے صحیح جگہ رکھوانے سے لے کر
ان کی قومیت، تعارف اور کردار
ہر چیز پر
اس کی عقابی نظر ہے۔
بھاری بھرکم کنٹینروں کی کھیپ آجائے
یا
نئے کیمپ کے لیے زمین ہموار کرکے نئے خیموں کی پیشگی تیاری ہو،
اس قدر خاموشی اور تیزرفتاری سے کام ہوتا ہے کہ سمجھ سے باہر ہے۔
یہ خود کار انسانی تربیتی نظام وضع کس نے کیا ہے؟
اس مردِ بیمار میں عقابی روح پھونکی کس نے ہے؟
یہ رضاکار لگتا ہے کہ کسی طویل تربیت سے گزر کر غفاری و قہاری اور قدوسی و جبروت میں ڈھل چکے ہیں۔
انسانیت کے خیرخواہوں میں سے نہ تو یہاں کوئی
عالمی ادارہ ہے
نہ این جی اوز،
الٹا ان امدادی مراکز پر
دو مرتبہ حملہ کروایا جاچکا ہے،
اس لیے بہت قہرناک قسم کا حفاظتی نظام ہے
جہاں کسی کو قریب پھٹکنے کی اجازت نہیں،
لیکن جیسے ہی انہیں پتا چلتا ہے کہ
یہ پہلا پاکستانی ملّا صحافی ہے
جسے اس جگہ قدم رکھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے
تو جس تیزی سے ان کی کرختگی اور درشتی محبت اور ملاطفت میں تبدیل ہوئی ہے،
وہ منظر بھی قابل دید ہوتا ہے۔ اندرونی ملک دھماکے،
بیرون ملک سے بڑھتا دبائو اور پنپتی سازشیں،
ادلب کے سقوط کا اندیشہ،
امدادی مراکز اور قافلوں پر حملے کا خوف،
کوئی چیز ان کو نئے مہاجرین کے انتظام سے روک سکتی ہے نہ
پہلے سے آئے مہاجرین کے لیے رہائش، صحت اور تعلیم کے اعلیٰ اور معیاری انتظام سے۔

واللہ!
اگر صرف ان چند دارالیتامیٰ کا حال بیان کروں
جنہیں اب تک دیکھنے کا موقع ملا
تو مجھے یقین ہے
ان سہولتوں کا
قارئین یقین ہی نہیں کریں گے جو ان بے آسرا بچوں کو اس نظریے کے تحت فراہم کی گئی ہیں
کہ یتیم کی کفالت
صرف رحمت خداوندی کے متوجہ ہونے کا ذریعہ ہے، بلکہ آمنہ کے لعل (صلی اللہ علیہ وسلم) سمیت
تاریخ کے بڑے بڑے لوگ یتیمی کا شکار ہوکر بھی
امت کی بے چارگی کے وقت غیرمتزلزل سہارا بن گئے تھے۔
خاص کر شام کے یتیم
کہ
کوئی کسی نبی کی آل ہے، کوئی کسی صحابی کی ذریت اور
کوئی خدا جانے کس ولی کی اولاد؟
اللہ ہی جانے
کون کیا ہے؟
لیکن ان سارے مناظر میں
ہم پاکستانی کہاں کھڑے ہیں؟
واہ میرے مولا!
ہماری مسلسل ناشکری کے باوجود
تو ہمیں وقتاً فوقتاً کیسے کیسے مواقع فراہم کرتا
اور کیسے کیسے اعزازات سے نوازتا ہے۔
حرمین کی حفاظت سے لے کر حرم قدسی کی طرف سے آنے والی دجّالی یلغار کے سامنے بند باندھنے تک،
نہ انڈونیشیا آئے گا
نہ ملائیشیا،
بنگلہ دیش میدان چھوڑ چکا ہے اور
مصر نے آنے سے صاف انکار کردیا ہے۔
لے دے کر بات
پھر پاکستان پر
اور اعزاز پھر پاکستانیوں کی گود میں آجاتا ہے
کہ کھجور والی سرزمین کی پاسبانی سے لے کر
زیتون والی ارض مقدس تک… فوج اور عوام دونوں…
سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔

وفاق کے اکابرین سے انتہائی متادّبانہ گزارش ہے
خدارا!
اس وقت
مہاجرین کی نصرت سے زیادہ انصار کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔
آپ ان لوگوں کے وارث ہیں جنہوں نے
خلافت عثمانیہ کے لیے
وہ کچھ کیا جس کے سہارے ہم آج تک سر اٹھاکر جی رہے ہیں۔
تاریخ آج دوبارہ آپ کو پکار رہی ہے۔
فقیر کے لکھے ہوئے تھوڑے کو بھی
بہت سمجھیں
اور پاکستانی عوام کو متوجہ کرکے
ترک بھائیوں کی پشت پر کھڑا کریں۔
مسئلہ مہاجرین کے معاشی مسائل حل کرنے تک محدود نہ رکھا جائے،
بلکہ وہ روحانی اور ایمانی کیفیت قوم میں پیدا کی جائے جن کے سہارے
ہماری آیندہ نسلیں فخر کے احساس کے ساتھ جی سکیں۔ خلافت عثمانیہ کو ہم نے
بندہ اور چندہ دونوں دیے تھے، آج اگر
برادرانہ حمایت
اور ایمانی اخوت کے دو بول ہی بول دیے جائیں
تو جو قوم
آج تک ہماری مائوں بہنوں کے بھیجے گئے زیور کو نہیں بھولی وہ
ہمارے علماء اور مشایخ کے اس کردار کو کیسے بھولے گی؟

اے پاکستان کے فلاحی ادارو! تمہارے
اولی الأمر اور اہل تدبیر
کہاں ہیں
جو تاریخ کے اس نازک موڑ پر انمٹ سنہری تاریخ رقم کرسکتے ہیں۔
ہر طرح کی معلومات موجود اور
ذرائع دستیاب ہوچکے ہیں۔
اللہ کی رضا و رحمت
اور خلق خدا کی دعائیں
اور لازوال محبت
دونوں تمہارے لیے لکھی جاسکتی ہیں۔
اگر بدی کے کئی راستے چوپٹ کھلے ہیں
تو نیکی کا راستہ بھی کہیں بند نہیں ہوتا۔
اور نیکی ایک بھی قبول ہوجائے
تو شر کے اندر سے خیر نکال لاتی ہے۔
دشمن کے برپا کردہ اس شر سے
کئی بھلائیاں وجود میں آسکتی ہیں۔
سنی سنائی نہیں مانی جاتی تو
دیکھی دکھائی تو سن لو! ماضی کا کفارہ
اور مستقبل کی نوید
دونوں تمہارے انتظار میں ہیں۔
ارضِ خلافت سے لے کر
ارضِ مقدس تک دونوں تمہاری راہ تک رہی ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

*یزید کے بارے میں اہل سنت والجماعت احناف دیوبند کا مؤقف*

*کیا امام ابو حنیفہ امام جعفر صادق کے شاگرد تھے*

*نزلہ زکام کا دائمی علاج*